مرزا قادیانی کا کبھی کبھی زنا کرنا
اس قدر اعتراضات کرنے کے باوجود ہر خط میں بڑا اخلاص بھی ظاہر کیا ہوا ہوتا ہے اور لکھا ہوتا ہے کہ ہم سلسلہ کے خادم ہیں مگر اس کی سلسلہ سے محبت کا اندازہ اسی سے ہو سکتا ہے کہ ایک خط میں جس کے متعلق اس نے یہ تسلیم کیا ہے کہ وہ اسی کا لکھا ہوا ہے اس پر یہ تحریر کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود ولی اللہ تھے اور ولی اللہ بھی کبھی کبھی زنا کر لیا کرتے ہیں، اگر انہوں نے کبھی کبھار زنا کر لیا تو اس میں حرج کیا ہوا۔ پھر لکھا ہے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراض نہیں کیونکہ وہ کبھی کبھی زنا کیا کرتے تھے ہمیں اعتراض موجودہ خلیفہ پر ہے جو ہر وقت زنا کرتا رہتا ہے ۔ اس اعتراض سے پتا لگتا ہے کہ یہ شخص پیغامی طبع ہے اس لئے کہ ہمارا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق یہ اعتقاد ہے کہ آپ نبی اللہ تھے مگر پیغامی اس بات کو نہیں مانتے اور وہ آپ کو صرف ولی اللہ سمجھتے ہیں ۔
(قادیانی اخبار الفضل 31 اگست 1938ء صفحہ 6، کالم 1)
(خطباتِ محمود ،سال 1938ءصفحہ 534)
یہ عبارت مرزابشیر الدین محمود (قادیانی خلیفہ ثانی) کے بیان سے ماخوذ ہے جو قادیانی اخبار الفضل میں شائع ہوئی اور بعد ازاں خطباتِ محمود میں بھی شامل ہے۔
اس عبارت کا پس منظر اور مفہوم نہایت سنگین نوعیت کا ہے، کیونکہ اس میں خود مرزائی لاہوری جماعت کے ایک فرد کی طرف سے مرزا غلام احمد قادیانی کے متعلق ”کبھی کبھی زنا کرنے“کا اقرار نقل ہوا ہے، اور خود مرزا محمود نے اس خط کو ”اسی کا لکھا ہوا تسلیم“کیا۔ اس مقام پر ہم چند نکات کی روشنی میں مفصل تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
مرزا غلام قادیانی پر ”زنا“ کا ماخذ
یہ عبارت دراصل ایک قادیانی مرید کے خط سے لی گئی ہے جس میں اس نے اپنے ”اخلاص“کا اظہار کرتے ہوئے مرزا قادیانی کے بارے میں یہ لرزہ خیز جملہ لکھا کہ:
”حضرت مسیح موعود ولی اللہ تھے اور ولی اللہ بھی کبھی کبھی زنا کر لیا کرتے ہیں۔ اگر انہوں نے کبھی کبھار زنا کر لیا تو اس میں حرج کیا ہوا۔“
یہ الفاظ کسی غیر مخالف یا بیرونی دشمن کے نہیں، بلکہ خود قادیانی جماعت کے اندر کے ایک شخص کے ہیں۔ اس خط کو مرزا محمود احمد نے ”تسلیم شدہ“خط قرار دے کر اپنی تقریر میں پیش کیا۔
یہ اس امر کی واضح شہادت ہے کہ قادیانی حلقوں میں مرزا غلام احمد کے کردار کے متعلق شکوک و شبہات موجود تھے اور یہاں تک کہ ”زنا“کا ذکر عام گفتگو یا خطوط میں کیا جاتا تھا۔
مرزا محمود احمد کا طرزِ بیان
مرزا محمود نے بظاہر اس قول کو پیغامیوں (یعنی لاہوری قادیانیوں) کے عقیدے سے منسلک کر کے مرزا غلام احمد کو نبی ماننے والوں اور ولی ماننے والوں میں فرق ظاہر کرنے کی کوشش کی۔
لیکن غور طلب امر یہ ہے کہ:
مرزا محمود نے اس زنا کے الزام کو صریح جھوٹ یا بہتان نہیں کہا۔ اس نے یہ نہیں کہا کہ یہ توہین ہے یا افترا ہےبلکہ صرف یہ کہا کہ یہ شخص پیغامی ہے، اس لیےکہ وہ مرزا قادیانی کو ولی مانتا ہے۔
یہ طرزِ بیان اس الزام کی اخلاقی سنگینی سے پہلو تہی کے مترادف ہے۔ اگر واقعی مرزا غلام قادیانی ”نبی اللہ “یا ”ولی اللہ“تھا، تو اس طرح کے جملے پر اس کی جماعت کا سربراہ سخت ردِعمل ظاہر کرتا، مگر یہاں ایسا نہیں ہوا۔
"ولی اللہ بھی کبھی کبھی زنا کر لیتے ہیں" کا عقیدہ
یہ جملہ قادیانیوں کے اندر پائے جانے والے اخلاقی زوال اور فکری انحراف کی عکاسی کرتا ہے۔اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہ عقیدہ سراسر کفر و ضلالت ہے، کیونکہ:
قرآنِ مجید فرماتا ہے:
وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَىٰ ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا
ترجمہ کنزالایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بیشک وہ بے حیائی ہے، اور بہت ہی بری راہ،
(سورہ بنی اسرائیل، آیت 32)
اسلام میں زنا کبیرہ گناہ ہے اور اولیاء اللہ تو وہ ہوتے ہیں جو ہر کبیرہ اور صغیرہ گناہ سے بچنے والے ہوں۔
رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ
زانی جب زنا کرتا ہے تو اس وقت مؤمن نہیں رہتا۔
(صحیح بخاری، حدیث 2475)
لہٰذا "ولی اللہ بھی کبھی کبھی زنا کر لیتے ہیں" کہنا دراصل قرآن و حدیث کے سراسر منافی ہے، بلکہ ولایت کا انکار ہے۔
مرزا غلام قادیانی کی عملی زندگی سے مطابقت
مرزا غلام احمد کی زندگی میں متعدد ایسے واقعات موجود ہیں جن سے جنسی بے راہ روی کے آثار ملتے ہیں جیسے:
1: محمدی بیگم سے ناجائز خواہشات اور جبراً شادی کی پیشگوئی۔
2: غیر عورتوں کے متعلق غیر شائستہ خطوط۔
3: خوابوں اور مکاشفات میں عورتوں سے منسوب فحش باتیں۔
ان شواہد کی روشنی میں اس خط میں درج زنا کا ذکر محض اتفاقی الزام نہیں بلکہ اس کے کردار کے بارے میں پہلے سے موجود شکوک کی تصدیق ہے۔
عقیدۂ ختمِ نبوت کے خلاف ایک مزید دلیل
قادیانی دعویٰ کرتے ہیں کہ مرزا غلام احمد نبی تھا۔قرآن و سنت کے مطابق انبیاء علیہم السلام معصوم عن الخطا ہوتے ہیں، ان سے کبائر اور بالخصوص زنا جیسے فواحش کا صدور ناممکن ہے۔لہٰذا اگر قادیانی خود تسلیم کریں کہ مرزا کبھی کبھی زنا کرتا تھا تو:
1. وہ نبی نہیں ہوسکتا۔
2. اگر وہ ولی مانا جائے تو ایسا ولی صریح گمراہ اور شیطان کا ولی ہوگا، نہ کہ اللہ کا۔
یہ عبارت قادیانیت کے اندرونی فسادِ عقیدہ، اخلاقی زوال اور فکری انحراف کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔مرزا غلام احمد پر کبھی کبھی زنا کرنے کا اقرار خود ان کی جماعت کے اندر سے سامنے آیا، اور ان کے خلیفہ نے اس خط کو تسلیم شدہ قرار دے کر اپنی تقریر میں نقل کیا۔
یہ واقعہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ مرزا قادیانی نہ نبی تھا، نہ ولی، بلکہ ایک ایسا شخص تھاجس کے کردار پر اس کے اپنے ماننے والے بھی اعتماد نہیں رکھتے تھے۔
قادیانی خلیفہ ثانی کو بھی قادیانی لاہوری جماعت والے زانی کہا کرتے تھے لہذا وہ اقرار کرتا ہے کہ:
جیسا زنا کا الزام مجھ پر لگا ویسا میرے باپ پر بھی لگا
وہ جانتے ہیں کہ جو باتیں آج مصری صاحب میرے متعلق کہہ رہے ہیں ۔ ایسی ہی باتیں ان کی پارٹی کے بعض آدمی حضرت مسیح موعود کے متعلق کہا کرتے تھے۔ پس اگر ایسی باتیں کہنا کوئی ثبوت ہوتا ہے ۔ تو پھر انہیں حضرت مسیح موعود کو بھی چھوڑا دینا چاہیے۔
(قادیانی اخبار الفضل 8 دسمبر 1938 ءصفحہ 5)
یہ حصہ دراصل قادیانی تاریخ کے ایک اور شرمناک اور تہلکہ خیز اعتراف پر مشتمل ہے، جو اس بات کو مزید واضح کرتا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے بیٹے مرزا محمود احمد دونوں کے کردار پر زنا کے الزامات صرف مخالفین ہی نہیں، بلکہ خود قادیانی حلقوں کے اندر بھی عام موضوعِ گفتگو تھے۔ ذیل میں اس واقعے کی تحقیقی وضاحت، پس منظر، اور دینی تجزیہ تفصیل سے پیش کیا جا رہا ہے۔
باپ بیٹا دونوں زانی قرار پائے
قادیانی جماعت کی تاریخ اس قدر تضادات اور اخلاقی انکشافات سے بھری ہوئی ہے کہ خود ان کے خلیفہ مرزا محمود احمد کو بھی اپنے اوپر لگنے والے زنا کے الزام کا اقرار کرنا پڑا، بلکہ اس الزام کو اپنے باپ مرزا غلام احمد قادیانی پر لگنے والے اسی نوعیت کے الزامات سے تشبیہ دی۔
پس منظر: خلیفہ ثانی پر زنا کا الزام
1938ء میں قادیانی جماعت کے اندر ایک شدید انتشار برپا ہوا۔ اس اختلاف کی بنیاد لاہوری قادیانی جماعت اور قادیان والے گروہ کے درمیان تھی۔ لاہوری جماعت کے بعض افراد، خصوصاً مولوی عبدالرحمٰن مصری قادیانی نے مرزا محمود کے کردار پر کھلے عام زنا کے الزامات لگائے۔ یہ الزامات صرف ذاتی کردار تک محدود نہ تھے بلکہ قادیانی خلافت کے تقدس پر بھی ایک سوالیہ نشان بن گئے۔
اسی دوران مرزا محمود نے اپنے دفاع میں ایک عجیب و غریب بیان دیا جو قادیانی اخبار الفضل، 8 دسمبر 1938ء، صفحہ 5 پر شائع ہوا۔
یہ بیان الفاظ میں چھوٹا لیکن مفہوم میں نہایت بڑا اور خطرناک ہے۔ غور کیجیے! مرزا محمود نے اپنے دفاع میں کیا کہا؟اس نے یہ نہیں کہا کہ یہ الزامات جھوٹ ہیں، یا میں زانی نہیں ہوں، بلکہ یہ کہا کہ جس طرح مجھ پر زنا کے الزامات ہیں، ویسے ہی میرے باپ پر بھی لگے تھے۔یہ دراصل باپ بیٹے دونوں کے کردار کی گواہی ہے، اور خود خلیفہ کے منہ سے ان الفاظ کا نکل جانا قادیانیت کے اخلاقی جنازے پر آخری کیل ثابت ہوتا ہے۔
عقلی و اخلاقی تجزیہ
مرزا محمود احمد کے اس بیان میں تین باتیں صاف ظاہر ہیں:
اول:
وہ تسلیم کر رہا ہے کہ اس پر زنا کا الزام نیا نہیں، بلکہ جماعت کے لوگ اس کے باپ مرزا غلام احمد پر بھی یہی الزام لگاتے تھے۔
دوم:
اس نے نہ اپنے زنا کی تردید کی اور نہ اپنے باپ کے زنا کے الزام کو جھوٹ کہا۔ بلکہ دونوں کو ایک ہی سطح پر رکھ کر کہا کہ ”اگر مجھ پر الزام غلط ہے تو مرزا غلام احمد پر بھی غلط سمجھو، اور اگر مجھ پر الزام درست ہے تو تمہیں مرزا غلام احمد کو بھی چھوڑ دینا چاہیے۔“ یہ طرزِ بیان صاف اخلاقی شکست اور فکری انحراف کی علامت ہے۔
سوم:
یہ واقعہ اس بات کی شہادت ہے کہ قادیانی تحریک کے دو بنیادی ستون — مرزا غلام احمد قادیانی اور مرزا محمود احمد — دونوں اخلاقی لحاظ سے متہم تھے۔ اس لیے ان کی سیرت و دعوت کسی طور بھی روحانی قیادت کے معیار پر پوری نہیں اترتی۔
اسلامی نقطۂ نظر سے تجزیہ
اسلام میں زنا ایسا جرم ہے جو نہ صرف فرد کے ایمان بلکہ معاشرے کی اخلاقی بنیاد کو بھی تباہ کر دیتا ہے۔ نہ صرف قرآنِ کریم نے زنا کو فاحشہ اور سبیلِ شیطان قرار دیابلکہ اس کی سزا پتھر مار کر ہلاک کرنا قرار پائی
الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ
ترجمہ کنزالایمان:جو عورت بدکار ہو اور جو مرد تو ان میں ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ اور تمہیں ان پر ترس نہ آئے اللہ کے دین میں اگر تم ایمان لاتے ہو اللہ اور پچھلے دن پر اور چاہیے کہ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کا ایک گروہ حاضر ہو۔
(سورہ نور، آیت 2)
انبیاء و اولیاء علیہم السلام گناہوں سے پاک ہوتے ہیں۔ اگر کسی شخص پر زنا کا الزام لگے اور وہ اسے جھوٹا ثابت نہ کر سکے، تو شریعت کی رو سے وہ فاسق و فاجر شمار ہوتا ہےاور سزا کے طور پر اس کو رجم کیا جاتا ہے۔
مرزا غلام احمد کے بارے میں پہلے سے یہ قول موجود تھا کہ وہ کبھی کبھی زنا کر لیا کرتے تھے(الفضل، 31 اگست 1938ء)، اور اب مرزا محمود احمد نے بھی تسلیم کیا کہ ایسے ہی الزامات میرے باپ پر بھی لگتے تھے(الفضل، 8 دسمبر 1938ء)۔
یہ دو متصل واقعات اس نتیجے تک پہنچاتے ہیں کہ قادیانی قیادت باپ سے بیٹے تک زنا کے الزامات میں گھری رہی۔ اگر یہ جھوٹے ہوتے تو قادیانی قیادت ان کی پرزور تردید کرتی، مگر دونوں مواقع پر خاموشی اور لاابالی طرزِ بیان نے ان الزامات کو تقویت دی۔
دینی و فکری نتائج
1. مرزا غلام احمد اور مرزا محمود احمد دونوں زنا کے الزامات سے بری نہ ہو سکے۔ان کے ماننے والوں کے خطوط اور بیانات میں یہ باتیں بار بار دہرائی گئیں اور کسی موقع پر صریح انکار نہیں کیا گیا۔
2. زنا کے الزام کا اعتراف باپ بیٹے کی اخلاقی تباہی کا مظہر ہے۔نبوت اور خلافت دونوں کا تقدس اس اعتراف سے مجروح ہو گیا۔
3. یہ واقعہ قادیانی عقیدے کے باطن میں چھپے ہوئے گندے اخلاقی نظام کا پردہ فاش کرتا ہے۔جس جماعت کے بانی اور خلیفہ پر خود ان کے پیروکار زنا کے الزامات لگائیں، اور قیادت ان کا دفاع شرعی انداز میں نہ کر سکے، وہ جماعت روحانی نہیں بلکہ فاسد اور گمراہ فرقہ ہے۔
4. قادیانیت کی باطل نبوت کا عملی ثبوت:نبی اور خلیفہ دونوں زانی مشہور ہوں، اور خود اقرار کریں کہ ہمارے متعلق بھی وہی کہا گیا جو مرزا غلام احمد کے متعلق کہا گیا تھا، تو یہ ان کے دعویٔ نبوت اور خلافت دونوں کے جھوٹے ہونے کا بین ثبوت ہے۔
خلاصہ بحث
یہ حقیقت کسی تعصب یا مخالفانہ پروپیگنڈا کا نتیجہ نہیں بلکہ قادیانی اخبارات کے خود شائع شدہ مواد سے ثابت شدہ ہے کہ:
مرزا غلام احمد قادیانی پر کبھی کبھی زنا کرنےکا الزام تھا۔
مرزا محمود احمد خلیفہ ثانی پر زنا کاری کے مسلسل الزامات لگے۔
اور خود خلیفہ نے یہ تسلیم کیا کہ میرے باپ پر بھی یہی کہا جاتا تھا۔
یوں یہ ثابت ہوتا ہے کہ قادیانی تحریک کا بانی اور اس کا جانشین دونوں زانی اور اخلاقی پستی میں مبتلا افراد تھے۔ ایسے لوگوں کی طرف نسبتِ نبوت و خلافت کرنا دراصل دینِ اسلام کی توہین اور ایمان کے زوال کا سبب ہے۔
قادیانی تحریک کی تاریخ میں بعض ایسے انکشافات موجود ہیں جنہیں پڑھ کر یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ یہ تحریک نہ صرف عقائد کے اعتبار سے باطل ہے بلکہ اخلاق و کردار کے لحاظ سے بھی انتہائی گندے اور فاسد بنیادوں پر قائم کی گئی تھی۔ مرزا غلام احمد قادیانی کی ذاتی زندگی اور اس کے بیٹے مرزا محمود احمد کی حرکات دونوں پر زنا کے سنگین الزامات لگے، اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان الزامات کو خود قادیانی قیادت نے نہ جھٹلایا، نہ سختی سے رد کیا، بلکہ اپنے طرزِ بیان سے ان کی موجودگی کو بالواسطہ طور پر تسلیم کر لیا۔
مرزا غلام قادیانی کی زناکاری ، عورتوں سے تعلقات
مرزا غلام قادیانی کے اخلاقی کردار کا جائزہ لیتے ہوئے یہ حقیقت نمایاں ہوتی ہے کہ اس کی پوری زندگی میں عورتوں سے بے محابا اختلاط، غیر محرم عورتوں کے ساتھ تنہائی، جسمانی قربت، حسن پرستی اور زنا کے شواہد بکثرت پائے جاتے ہیں۔ اسلام نے عورت کی عزت و عصمت کے تحفظ کے لیے سخت شرعی اصول مقرر کیے، غیر محرم عورت اور مرد کی تنہائی پر پابندی لگائی اور نظر و لمس تک کو فتنے کا سبب قرار دیا، لیکن خود ساختہ نبی مرزا قادیانی ان تمام شرعی پابندیوں سے آزاد تھا اور اپنی ایک ایسی "شریعت" بنا بیٹھا تھا جس میں غیر محرم عورتوں سے ٹانگیں دبوانا، رات کو عورتوں کا پہرہ رکھوانا، تنہائی میں گفتگو کرنا، حسن پرستی کے تبصرے کرنا اور نوجوان لڑکیوں کو بلا کر پسندیدگی کا جائزہ لینا سب کچھ جائز تھا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مرزا کا اپنا گھرانہ اور اس کے مرید بھی اس کے ان افعال پر اعتراض نہیں کرتے تھے، بلکہ انہیں نبی کے لیے باعثِ برکت سمجھتے تھے۔
مرزا قادیانی نے بظاہر عورتوں کے پردے، مصافحہ، بد نظری اور پاکدامنی کے بارے میں بڑے وعظ و نصیحت کیے۔ اس نے لکھا کہ رسول اللہ ﷺ پاک دامن عورتوں سے بھی ہاتھ نہیں ملاتے تھے، عورتوں کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا بھی فتنہ ہے اور جو عورتیں پردہ نہیں کرتیں شیطان ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ مگر دوسری طرف خود مرزا کی زندگی کھلی ہوئی بے راہ روی، غیر محرم عورتوں سے جسمانی تعلق اور بے پردگی پر مبنی تھی۔ اس کے مریدوں نے جب سوال کیا کہ حضرت غیر عورتوں سے ہاتھ پاؤں کیوں دبواتے ہیں تو جواب دیا گیا کہ وہ نبیِ معصوم ہیں، ان کے لیے یہ سب جائز ہے۔ یہ وہ دوہرا معیار ہے جو منافقت کی سب سے بڑی دلیل ہےمریدین کے لے سخت وعظ و نصیحت مگر اپنے لیے تمام حدود شیطانی تاویلات کے ساتھ معاف۔
مرزا کی عورتوں سے بے حیائی کے واقعات نہ صرف عام مشاہدہ ہیں بلکہ اس کے گھر کے افراد اور اس کی جماعت کی معتبر شخصیات نے "سیرت المہدی" میں کھل کر بیان کیے ہیں۔ ایک طرف اس کے گھر میں مختلف نامعلوم عورتوں کا مسلسل رہنا، تنہائی کے پہرے کے بہانے رات بھر عورتوں کا قرب، نوجوان لڑکیوں کو بلا کر ان کی خوبصورتی پر بحث اور دوسری طرف خوابوں میں عورتوں کا بغلگیر ہونایہ سب اس کے باطنی رجحان کی گواہی ہیں۔ زینب بیگم، ڈاکٹرنی، بھانو، مائی تابی ،صفیہ ،زینب وغیرہ اور دیگر بہت سی غیر محرم لڑکیاںجو مرزا قادیانی کی خدمت پر مامور رہتی تھیں ، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کی نجی اور معاشرتی زندگی عورتوں کے طواف اور نسوانی خدمت کے گرد گھومتی تھی۔
یہ تمام عملی معاملات مرزا قادیانی کے زنا کی طرف واضح اشارہ تھے۔ لیکن اصل اور ناقابل تردید ثبوت وہ ہے جو خود قادیانی جماعت کے اپنے اخبار "الفضل" نے شائع کیا۔ سال 1938ء میں قادیانی لاہوری جماعت کے ایک ذمہ دار شخص نے مرزا محمود احمد (خلیفہ ثانی) اور مرزا غلام احمد دونوں پر زنا کے سنگین الزامات تحریری شکل میں لگائے۔ اس خط میں لکھا تھا کہ مرزا غلام احمد "ولی اللہ" تھا اور "ولی کبھی کبھی زنا کر لیا کرتے ہیں"، لہٰذا اس پر اعتراض نہیں، اعتراض صرف مرزا محمود پر ہے جو "ہر وقت زنا کرتا رہتا ہے"۔ یہ جملہ جماعتِ احمدیہ کے اپنے اخبار روزنامہ الفضل میں 31 اگست 1938ء کو شائع ہوا اور مرزا محمود نے اسے جمعہ کے خطبے میں خود پڑھ کر سنایا۔ اس خط میں مرزا غلام احمد کی ’’کبھی کبھی زنا‘‘ اور مرزا محمود کی ’’ہمہ وقت زنا‘‘ کا اعتراف جماعتی سطح پر درج ہو گیا۔ جب مرزا محمود پر مصری صاحب نے زنا کی فردِ الزام رکھی تو اس نے بجائے تردید کے فرمایا کہ میرے خلاف جو باتیں کہی جا رہی ہیں، ویسی ہی باتیں پہلے میرے والد (مرزا غلام احمد) کے متعلق بھی کہی جاتی تھیں، پس اگر یہ الزام دلیل ہے تو پھر انہیں میرے والد کو بھی چھوڑ دینا چاہیے۔ یہ بیان اپنے اندر وہ اعتراف رکھتا ہے جسے تاریخ کبھی جھٹلا نہیں سکتی۔
یوں مرزا قادیانی کے کردار کی بے راہ روی اور عورتوں سے فحش تعلقات صرف مخالفین کے الزامات نہیں رہے بلکہ یہ اس کے گھر کی گواہی، جماعتی روایات، تبلیغی لٹریچر اور بالآخر اس کے بیٹے کے زبان زد اعترافات میں ثابت ہو گئے۔ جب عملی زندگی عورتوں کی خدمت، عورتوں کے پہرے، غیر محرموں سے ملاپ، ٹانگیں دبوانے، حسن پرستی اور خوابوں میں نسوانی قربت سے بھری ہو، اور تاریخی ریکارڈ میں "زنا" کا اقرار بھی درج ہو جائے، تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ مرزا قادیانی کی عورتوں سے رغبت ایک معمولی اخلاقی کمزوری نہیں بلکہ ایک مستقل زناکاری کا مزاج تھی جسے اس نے مذہب اور "نبوت" کے پردے میں چھپانے کی کوشش کی۔
بالآخر مرزا قادیانی کے عورتوں سے کردار، اس کی فحش عادات، اور 1938ء کے شائع شدہ اعترافات مل کر اس گمراہ تحریک کا حقیقی اخلاقی چہرہ سامنے لاتے ہیں۔ ایک ایسا شخص جو اپنی ہر بات میں عورتوں کا اسیر، ہر عمل میں پردے کا منکر، اور اپنے ہی ماننے والوں کی زبان سے "کبھی کبھی زنا" کا مرتکب ثابت شدہ ہو، وہ نہ نبی ہو سکتا ہے نہ مہدی، نہ مسیح اور نہ ہی کوئی ولی۔ اس کے کردار کا بگاڑ اس کے جھوٹے دین کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
آخری تدوین
: